۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
صلح امام حسن علیہ السلام

حوزہ/ امت محمدی کو یقین مطلق ہے کہ اگر امام حسن مجتبٰی، سبط اکبر سے بھی مطالبۂ بیعت ہوتا تو آپؑ بھی سبطٍ اصغر شہید اکبر کی مانند جنگ پر آمادہ ہوتے۔ آپ کے مونس و مددگار ہوتے۔ کیونکہ آلٍ محمد ﷺ کسی غیر کی بیعت حرام مطلق سمجھتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

مورخین اور علمائے اسلام میں اتفاق یہ ہے کہ امام حسن مجتبٰیؑ معاویہ لعنت اللہ کی جانب سے جعدہ بنت اشعث کے ذریعے دیئے گئے زہر کی وجہ سے 28 صفر المظفر بروز جمعرات سنہ 50 ہجری کو 48 سال کی عمر میں شہید ہوئے اور شیخ مفید اور عظیم مفسر شیخ طبرسی نے اس کی تصریح کی ہے۔ (شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفہ حجج اللہ علی العباد، جلد 2، صفحہ 15؛ شوشتری، محمد تقی، رسالہ فی تواریخ النبی، صفحہ 33)

آج نواسۂ رسولٍ حضرت محمد مصطفٰی ﷺ، امام حسن علیہ السلام کی 1395 ویں یومٍ شہادت منائی جا رہی ہے۔ آپؑ کی شہادت ضرب ید اللہ کے 9 سال بعد اور سجدۂ شبیری یعنی شہادت سیدالشہدا کے 10 سال قبل ہوئی۔

آپ کی حیات طیبہ کا اصل اور اہم معرکہ 'صلح امام حسن' قرار پایا اور یہ تاریخ اسلام کا لازوال بلند و بالا ستون ہے۔

حسنینؑ کریمینؑ کا ذکر ہوگا تو صُلح و جنگ پر تبصرہ ہوگا۔ لہٰذا یہ لکھنا ہی پڑے گا کہ امام حسنؑ کے لیے جنگ ممکن نہ تھی اس لیے آپؑ نے صُلح کی اور یہ بات مورخین نے شواہد کے ساتھ تحریر کی ہے اور امام حسین علیہ السلام کے لیے صلح ممکن نہ تھی اس لیے سید الشہداء نے جنگ کی۔ اور از روئے حدیث اپنے مقام پر دونوں عمل صحیح اور ممدوح ہوئے۔ "امامان قاما اوقعدا۔' یہ دونوں امام حسن اور امام حسن، ہر حال میں واجب الاطاعتہ ہیں چاہے جنگ کریں یا صُلح (علامہ مجلسی، بحار الانوار) یعنی دونوں کے حالات اور سوالات میں فرق تھا۔ امام حسنؑ کے پاس اس وقت بالکل معین و مدد گار نہ تھے۔ جب معاویہ نے خٍلع خلافت کا سوال کیا تھا۔ نیز معاویہ کا سوال یہ تھا کہ خلافت سے کنارہ کش ہو جاؤ یا اپنی اور اپنے ماننے والوں کی تباہی و بربادی برداشت کرو۔ رحمت العالمین کے نواسے اور شیرٍ خدا و فاتح خیبر کے فرزند نے خٍلع خلافت کو مناسب سمجھا اور صُلح کرلی۔ پارہ جگر فاطمتہ الزہؑرا مسلسل ارشاد فرمایا کرتے تھے "میں نے خلافت ادراک فہمی کے مد نظر اس لیے ترک کر دی ہے تاکہ امن، سکون اور اصلاح ہوسکے اور انسان اور اسلام دوست کا ناحق لہو نہ بہے۔ (علامہ مجلسی، بحار الانوار)۔

صُلح امام حسن مجتبٰی کے پس منظر کو مزید مربوط قابل فہم کے لیے وضاحت ضروری ہے اس لیے تحریر کرنا لازمی ہے کہ امام حسین صلوات اللہ علیہ کے پاس بہترین جاں نثار جاں باز موجود تھے اور یزید ابن معاویہ لعنت اللہ کا سوال یہ تھا کہ بیعت کرو یا سر دو۔ (طبری، روضتہ الصفا) سردار شباب جنت نے حالات کی روشنی میں ناناؐ کے دیں کی بقا کے لیے قربان ہونا مناسب سمجھا اور بیعت سے اٍنکار کر کے جنگ پر آمادہ ہوکر مصداق سورۃ الفجر ہوئے۔

امت محمدی کو یقین مطلق ہے کہ اگر امام حسن مجتبٰی، سبط اکبر سے بھی مطالبۂ بیعت ہوتا تو آپؑ بھی سبطٍ اصغر شہید اکبر کی مانند جنگ پر آمادہ ہوتے۔ آپ کے مونس و مددگار ہوتے۔ کیونکہ آلٍ محمد ﷺ کسی غیر کی بیعت حرام مطلق سمجھتے ہیں۔

علامہ جلال حسینی مصری نے "الحسین" میں بحوالہ واقعہ حرہ تحریر کیا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد کسی حکومت نے آلٍ محمد ﷺ کے کسی بنو امیہ یا بنو عباسیہ کے دورٍ اقتدار میں بیعت کا سوال نہیں کیا:
بحکمٍ حق کہیں پر صُلح کر لیتے ہیں دُشمن سے
کہیں پر جنگٍ خاموشی جوابٍ سنگ ہوتی ہے
زمانہ یہ سبق لے فاطمہ کے دل کے ٹکڑوں سے
کہاں پر صُلح ہوتی ہے کہاں پر جنگ ہوتی ہے
صُلح امام حسن کے حوالے سے فرزند رسولؐ اکرم کے اس خطبہ کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا جو آپ نے مقامٍ ساباط سے روانہ ہوتے وقت فرمایا:
" لوگو! تُم نے اس شرط پر مجھ سے بیعت کی ہے کہ صلح اور جنگ دونوں حالتوں میں میرا ساتھ دوگے۔" میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے کسی شخص سے بغض و عداوت نہیں ہے۔ میرے دل میں کسی کو ستانے کا خیال نہیں۔ میں صُلح کو جنگ سے اور محبت کو عداوت سے کہیں بہتر سمجھتا ہوں۔"
مفسر قرآن، مورخ، اور مصنف علامہ سید علی نقی نقوی نقن صاحب رقم طراز ہیں کہ امیر شام کو حضرت امام حسن علیہ السلام کی فوج کی حالت اور لوگوں کی بیوفائی کے حال سے بخوبی واقف ہو چکا تھا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ امام حسن کے لیے جنگ ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس بات سے بھی آشنا تھا کہ امام حسن کتنے ہی بے بس اور بے کسی میں ہوں مگر فرزند علیؑ و فاطمؑہ اور نواسۂ رسول ﷺ ایسے شرائط پر ہرگز صُلح نہ کریں گے جو حق پرستی کے خلاف ہوں اور جن سے باطل کی حمایت ہوتی ہو۔

شہیدٍ اعظم حضرت امام حسین علیہ السلام یہ فرمان کے جیسے اصحاب مجھکو ملے ویسے اصحاب نہ میرے ناناؐ، نہ باباؑ اور نہ میرے برادرؑ کو ملے۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے امام حسن کا وہ خطبہ ملاحظہ فرمائیں: "آگاہ رہو کے تم، وہ خونریز لڑائیاں ہو چکی ہیں جن میں بہت لوگ قتل ہوئے۔ کچھ مقتول صفین میں ہوئے جن کے لیے آج تک رو رہے ہو اور مقتول نہروان کے جن کا معاوضہ طلب کر رہے ہو، اب اگر تم موت پر راضی ہو تو ہم اس پیغامٍ صُلح کو قبول نہ کریں اور ان سے اللہ کے بھروسے پر تلواروں سے فیصلہ کریں اور زندگی کو عزیز رکھتے ہو تو ہم اس کو قبول کر لیں اور تمہاری مرضی پر عمل کریں۔" جواب میں لوگوں نے ہر طرف سے پکارنا شروع کیا ہم زنگی چاہتے ہیں۔ ہم زندگی چاہتے ہیں۔ آپ صُلح کر لیجیے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے صُلح کی شرائط تیار کر صلح کیا۔ (ترجمہ ابن خلدون)

25 ربیع الاول کو کوفہ کے قریب مقام انبار میں فریقین کا اجتماع ہوا اور صُلح نامہ پر امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے دستخط ہوئے اور گواہیاں ثبت ہوئیں۔ (نہایتہ الارب فی معرفہ انساب العرب، صفحہ 80)

تکمیل صُلح کے بعد امام حسن مجتبٰی منبر پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا۔ "اے لوگو! خدائے تعالٰی نے ہم میں سے اول کے ذریعہ سے تمہاری ہدایت کی اور آخر کے ذریعہ سے تمھیں خونریزی سے بچایا۔ معاویہ نے اس امر میں مجھ سے جھگڑا کیا جس کا میں اس سے زیادہ مستحق ہوں لیکن میں نے لوگوں کی خونریزی کی نسبت اس امر کا ترک کر دینا بہتر سمجھا۔ تم رنج و ملال نہ کرو میں نے حکومت اٍس نا اہل کو دے دی اور اس کے حق کو جائے ناحق پر رکھا۔ میری نیت اس معاملہ میں صرف امت کی بھلائی ہے۔ (تاریخ خمیس، جلد 2، صفحہ 325)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .